جو واقعہ میں تحریر کرنے جارہی ہوں ہمارے دور کے چچا کا ہے جو کہ گوجرانوالہ کے رہائشی تھے۔ 8 ماہ پہلے وہ ہر آنکھ کو اشکبار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ پیشے کے لحاظ سے قصاب تھے۔ ان کی عادت تھی وہ ہروقت کسی نہ کسی کی نہ صرف مدد کرتے بلکہ جیسا حکم ہے کہ اپنے ایک ہاتھ سے ایسے اللہ کی راہ میں دو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی علم نہ ہو۔ اگر کوئی غریب مستحق نادار کسی دوسرے قصاب کے پاس آتا کہ پیسے نہیں اللہ کی راہ میں تھوڑا سا گوشت دیدو۔ وہ قصائی شکیل کا ایڈریس دیکر کہتا اس کے پاس جائو تمہارا کام ہوجائیگا گویا وہ اپنے چند روپے کمانے کی خاطر ہاتھ آئی نیکی شکیل کو دے دیتے اور شکیل سوالی سے کہتا روز آکر لے جایا کرو۔ ان کے فوت ہونے کے بعد کئی ایسے انجان چہرے اور عورتیں سامنے آئیںجن کو خاندان میں کوئی نہیں جانتا تھا مگر وہ اپنے کردار سے انجان لوگوں کو رلا گئے۔ عورتیں روتیں کہ ہم بیوہ یا بے آسرا ہیں مگر ہمیں احساس نہ تھا ہم تو آج بے آسرا ہوئی ہیں وہ مستحق لوگوں کو راشن گھر میں پہنچا دیتے۔ ایک مرتبہ ان کی والدہ نے کہا بیٹا فلاں جگہ پلاٹ اچھی قیمت میں مل رہا ہے بچوں کیلئے خرید لو ان کی جگہ بن جائیگی۔ تو وہ ایکدم بے چین ہوکر بولے ”اماں یہ کیوں نہیں کہتی کہ یہ پیسے کسی غریب کے کام آجائیں یا کسی یتیم کے کام آجائیں‘ ان یتیموں کا کون سوچے گا‘ اپنے بچوں کے سر پر تو میں ابھی ہوں“ مگر ماں کی خوشی اور حکم پورا کیا۔
وہ جانور خریدنے کی غرض سے دو دوستوں کے ساتھ منڈی جانے لگے تھے گاڑی میں بیٹھے ٹکٹ بھی کٹوایا۔ اتنے میں ظہر کی اذان ہوگئی تو وہ گاڑی سے ا ترنے لگے تو ساتھ جانے والے دوستوں نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟ بولے اذان ہوگئی ہے پہلے نماز پڑھ لیں تو دوستوں نے کہا نماز پڑھنے میں گاڑی نکل جائیگی تو وہ بولے گاڑی دوسری بھی مل جائیگی مگر نماز دوبارہ نہیں آئیگی۔ وہ گاڑی سے اتر گئے اوردوست چلے گئے جب وہ گاڑی میں بیٹھے اتفاق سے گاڑی کی آخری سیٹ ملی پیچھے سے دوسری گاڑی کی زوردار ٹکر ہوگئی پیچھے بیٹھے 4 مسافر زندگی کی بازی ہار گئے جن میں سے ایک شکیل بھی تھے۔
ان کے گھر ایک قیامت برپا تھی۔ وہ نہ صرف نمازی بلکہ غریبوں کی مدد کرنے والے تھے۔ ان کی ماں‘ بیوی اور چار چھوٹے چھوٹے بچے غم سے نڈھال تھے۔ ایک روز بیٹے قبر پر گئے تو بارشوں کی وجہ سے قبر کی مٹی ہٹ چکی تھی اور تختے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے نے مولوی صاحب کو بلوایا کہ ہم قبر صحیح کرنا چاہتے ہیں مگر ماں کی ضد تھی کہ ایک نظر بیٹے کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ مولوی صاحب نے اجازت دیدی جب ان کی قبر سے تختے ہٹائے گئے تو تین ماہ گزرنے کے باوجود وہ ایسے پڑے تھے جیسے سورہے ہوں‘ ان کے کفن پر مٹی بھی نہ پڑی تھی‘ یوں لگ رہے تھے جیسے ابھی جاگیں گے اور ان کا چہرہ بھی دائیں جانب تھا۔ اس وقت قبرستان میں موجود ہر شخص نے ان کا دیدار کیا اور تین ماہ کی نڈھال اور بیقرار ماں کو قرار اور سکون مل گیا تسلی ہوگئی۔
حدیث کا مفہوم ہے جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے‘ ننگے کو کپڑا پہنائے‘ مسافر کو رات گزارنے کیلئے جگہ دے اللہ رب العزت اسے قیامت کی ہولناکیوں سے پناہ دینگے۔
جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو ترک نماز کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے جنتی آگ میں جلنے والے گنہگاروں سے پوچھیں گے تم دوزخ میں کیوں چلے گئے؟ وہ جواب دینگے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ (المدثر 34 تا 38)
اے امت مسلمہ خدا کے واسطے اپنی جانوں پر رحم کرو‘ قبر میں کوئی ساتھ دینے والا نہ ہوگا سوائے اعمال کے۔ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ کوشش کیجئے کہ آپ کی قبر جنت کا باغ ہی ہو۔ نماز قائم کریں‘ اللہ کی راہ میں خرچ کریں یہ مت ڈریں کہ وہ آپ کا قرض لیکر ضبط کرلیگا۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 445
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں